Pages

قضائے حاجت حدیثِ شرعی احکام Purification of Body sunnah method of bathing Islamic Ruling Urdu


قضائے حاجت کے شرعی احکام
Purification of Body sunnah method of Istinja purification and bathing Islamic Ruling in Urdu 

از: مفتی محمد راشد ڈسکوی‏،  استاذ جامعہ فاروقیہ، کراچی


     Reproduced with jazakallah from Monthly urdu magazine Darul Uloom India Feb 2013 for details click http://www.darululoom-deoband.com/urdu/magazine/new/tmp/02-Qazae%20Hajat_MDU_02_February_13.htm  
   جی ہاں ، کیوں نہیں!! ”ہمارے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سب کچھ ہی سکھلایا ہے، اور استنجے سے متعلق بھی ضروری ہدایات دی ہیں“۔یہ تاریخی کلمات حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے ان مشرکین کے جواب میں ارشاد فرمائے تھے جو بطورِ استہزاء اور طنز کہہ رہے تھے کہ ”تمہارے نبی تو تمہیں پیشاب پاخانہ کرنے کے طریقے بھی سکھاتے ہیں!“
          حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے مزید یہ بھی ارشاد فرمایا کہ ہمیں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے کہ پاخانہ یا پیشاب کے وقت ہم قبلہ کی طرف رُخ کریں یا یہ کہ ہم داہنے ہاتھ سے استنجا کریں، یا یہ کہ ہم استنجے میں تین پتھرون سے کم استعمال کریں، یا یہ کہ ہم کسی چوپائے (اونٹ، گھوڑے یا بیل وغیرہ ) کے فضلے(گوبر اور لید وغیرہ) یا ہڈی سے استنجا کریں۔
          (صحیح مسلم، کتاب الطھارة، باب الاستطابة، رقم الحدیث:۲۶۲،بیت الأفکار)
حدیثِ مبارکہ سے مستفاد امور
          علامہ طیبی  اس حدیث کے ضمن میں لکھتے ہیں، کہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے حکمت سے بھر پورجواب دیا، آپ نے اس کے استہزاء کی کوئی پروا نہ کی اورایسا جواب دیا جو ایک شیخ اپنے مرید کی راہنمائی کرتے ہوئے دیتا ہے، یعنی : اس استہزاء کرنے والے کو یہ فرمایا کہ ”یہ کوئی قابل استہزاء بات نہیں ہے بلکہ یہ تو ایک اٹل حقیقت اور قابلِ اعزاز بات ہے،اور جب ایسا ہے تو تم پر لازم ہے کہ ہٹ دھرمی چھوڑو اور صراط مستقیم کو اختیار کرو، یہ صراطِ مستقیم تمہارے باطن اور ظاہر کو پلیدگیوں اور نجاستوں سے پاک کر دے گا“۔(فتح الملہم، کتاب الطھارہ، باب الاستطابة،۲/۱۱۵، مکتبہ دار العلوم کراچی)
          مندرجہ بالا حدیث ِ مبارکہ میں پیشاب پاخانہ کرنے سے متعلق چار ہدایات ارشاد فرمائی ہیں:
قضائے حاجت کے وقت کس طرف منہ کیا جائے؟
          (۱ )     قضائے حاجت کے وقت اس طرح بیٹھا جائے کہ قبلے کی طرف نہ منہ ہو اور نہ ہی پیٹھ۔ یہ حکم قبلہ کے ادب و احترام اور تقدس کی خاطر تھا کہ کوئی بھی ذی شعور انسان جو لطیف اور روحانی حقیقتوں کا ادراک کرنے والا ہو وہ اس موقعہ پر کسی مقدس اور محترم چیز کی طرف منہ یا پشت کرنے کو بے ادبی شمار کرتے ہوئے اس طرز کے اپنانے سے گریز کرے گا۔
استنجاء کس ہاتھ سے کیا جائے؟
          (۲)      دوسری ہدایت یہ دی گئی کہ اس عمل کے لیے اپنا دایاں ہاتھ استعمال نہ کیا جائے،اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر فوقیت دی ہے، اس ہاتھ کو اعلی،محترم ، مقدس، صاف ستھرے اور نفیس کاموں کے لیے تو استعمال کیاجا سکتا ہے ،گھٹیا اور رذیل کاموں کے لیے نہیں؛ چناں چہ ! دائیں ہاتھ کے شرف و احترام کی وجہ سے استنجا کرتے ہوئے استعمال نہیں کیا جائے گا۔
کتنے ڈھیلوں سے استنجاء کیا جائے؟
          (۳)     تیسری ہدایت یہ کی گئی ہے کہ استنجے کے لیے کم از کم تین ڈھیلوں کو استعمال کیا جائے، اس کی وجہ یہ تھی کہ عام طور پر صفائی تین پتھروں سے کم میں پوری طرح نہیں ہوتی؛اس لیے حکم دیا گیا کہ تین پتھر استعمال کر کے اچھی طرح اور مکمل صفائی کی جائے؛چناں چہ اگر کسی شخص کی صفائی تین پتھروں سے حاصل نہ ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ تین سے زائد پتھر استعمال کرے تاکہ کامل صفائی ہو جائے۔نیز حدیثِ مذکور میں پتھر کا ذکر کیا گیا ہے، یہ اس زمانے میں ملنے والی عام چیز کی وجہ سے تھا، موجودہ دور میں شہروں میں بنے ہوئے پختہ بیت الخلاء میں ٹوائلٹ پیپر استعمال کیا جائے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں؛اسی طرح ہر وہ پاک چیز جس سے صفائی کا مقصد حاصل ہو سکتاہو اور اس کا استعمال اس کام کے لیے موضوع بھی ہو اور جسم کے لیے نقصان دہ بھی نہ ہو۔
جانوروں کے فضلات سے استنجاء کرنے کا حکم
          (۴)     چوتھی ہدایت یہ دی گئی ہے کہ استنجا کے لیے کسی جانور کی گری پڑی ہڈی یا ان کے فضلے (لید، گوبر وغیرہ)کو استعمال نہ کیا جائے، دراصل اس طرح زمانہٴ جاہلیت میں کر لیا جاتا تھا؛ حالانکہ یہ فطرتِ سلیمہ کے خلاف ہے۔احادیثِ مبارکہ میں متفرق طور پر قضائے حاجت سے متعلق بہت سے احکامات مذکور ہیں ، نیز! فقہاء کرام نے ان احادیث کی روشنی میں بہت سے مسائل کتب ِ فقہ میں ذکر کیے ہیں، ذیل میں قضائے حاجت سے متعلق مختلف اہم مسائل نقل کیے جاتے ہیں؛ تاکہ ہم اپنا یہ عمل بھی شریعت کے مطابق انجام دے سکیں۔
 قضائے حاجت سے قبل کی مسنون دعا
          حضر ت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”حاجت کے ان مقامات میں خبیث مخلوق شیاطین وغیرہ رہتے ہیں، پس تم میں سے جب کوئی بیت الخلاء جائے تو چاہیے کہ پہلے یہ دعا پڑھے، أَعُوْذُ بِاللّہِ مِنَ الْخُبُثِ وَ الْخَبائِثِ“(ترجمہ: میں اللہ کی پناہ لیتا ہوں خبیث جنوں اور خبیث جنّیوں سے۔
          (سنن أبي داوٴد، کتاب الطھارة، باب ما یقول الرجل إذا دخل الخلاء، رقم الحدیث: ۶،۱/۳،دار ابن الحزم)
           اس دعا کی برکت سے انسان شریر جنات کے اثرات سے محفوظ ہو جاتا ہے؛ کیوں کہ یہ گندی جگہیں جنات و شیاطین کا مسکن ہوتی ہیں اور یہ مخلوق ان جگہوں پر آکر فراغت حاصل کرنے والوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتی ہے؛ اسی لیے سرکارِدو عالم  صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اس بات کی تعلیم دی گئی کہ جب تم قضائے حاجت کے لیے ایسی جگہوں پر جاوٴ تو ان کے شرور سے بچنے کے لیے اللہ کی پنا میں آ جایا کرو؛چناں چہ روایات میں آتا ہے کہ اس دعا کے پڑھنے والا شریر جن اورشریر جنّیوں کے اثرات سے محفوظ ہو جاتا ہے۔
قضائے حاجت کے بعد کی دعا
           حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جناب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی قضائے حاجت سے فارغ ہوتے تو ”غُفْرَانَکَ“ کہتے تھے(ترجمہ: اے اللہ میں تجھ سے اپنے گناہوں کی معافی چاہتا ہوں۔
          (السننالکبریٰ للنسائي، کتاب الطھارة، ما یقول إذا خرج من الخلاء، رقم الحدیث: ۹۸۲۵، موٴسسة الرسالة)

          ایک دوسری روایت میں آتا ہے کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم جب قضائے حاجت سے فارغ ہوتے تھے تو یہ دعا پڑھتے تھے: ”اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِيْ أَذْھَبَ عَنِّيْ الْأَذیٰ وعَافَانِيْ“ (سنن کبریٰ ۹۸۲۵) ترجمہ: تمام تعریفیں اس اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں، جس نے مجھ سے گندگی دور کی اور مجھے تکلیف سے عافیت دی۔ یہ دعا بڑی اہمیت کی حامل ہے؛ اس لیے کہ انسان جو کچھ بھی کھاتا ہے ، اس کا ایک حصہ جسم کے لیے تقویت کا باعث بنتا ہے، اور ایک حصہ بہ طورِ فضلہ جسم سے خارج ہو جاتا ہے، اس غذا کا جسم سے خارج ہونا اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے،اگر یہ فُضلہ جسم سے نہ نکلے توانسان بیماریوں میں مبتلا ہوجائے،اس دعا میں اللہ کی اس نعمت پر شکر ادا کرنا ہے، کہ اس نے ہمیں اس گندگی سے نجات دی،اس کو ”أَذْھَبَ عَنِّيْ الْأَذی“سے تعبیر کیا،اسی کے مناسب ”غُفْرانَکَ“ کے ساتھ کی جانے والی دعا ہے ، حکمت اور مقصد اس دعا کا یہ ہے کہ اے اللہ جیسے تو نے میرے جسم سے زائد فضلات کو دور کر کے مجھے گندگی سے نجات عطا فرمائی اور مجھے عافیت جیسی عظیم نعمت نصیب فرمائی ، ایسے ہی تو میرے باطن کو صاف فرمادے اور میرے گناہوں کی مغفرت فرما۔ اس کے ساتھ ساتھ اس نے ہم پر ایک اور انعام کیا کہ اس نے جسم سے ساری کی ساری غذا نہیں نکال دی، اگر ایسا ہو جاتا تو ہم زندہ ہی نہ رہتے، اس نعمت کے شکر کو ”وعَافَانِيْ“ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
          فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ ان دونوں دعاوٴں ”غُفْرَانَکَ“ اور ”اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِيْ أَذْھَبَ عَنِّيْ الْأَذیٰ وعَافَانِيْ“ کو جمع کر کے پڑھا جائے؛البتہ اگر کسی کو دوسری دعا نہ آتی ہو تو پھر صرف ”غُفْرَانَکَ“ پڑھ لے۔
بیت الخلاء اور غسل خانہ اکٹھا ہونے کی صورت میں دعائیں کس جگہ پڑھی جائیں؟
          آج کل گھروں میں باتھ روم ،حمام ، واش بیسن وغیرہ اکٹھے بنے ہوتے ہیں، اس صورت میں جب قضائے حاجت کے لیے ان جگہوں میں داخل ہو تو غسل خانے میں داخل ہونے سے پہلے دعا پڑھے، اور جب فارغ ہو کر کے نکلے تو نکلنے کے بعد دعا پڑھے۔
          نیز! اگر قضائے حاجت کسی میدان ، جنگل یا صحراء وغیرہ میں کرنی پڑے تو اس صورت میں قضائے حاجت سے پہلے پڑھی جانے والی دعا ستر کھولنے سے قبل پڑھے اور قضائے حاجت کے بعد پڑھی جانے والی دعا ستر چھپالینے کے بعد پڑھے۔
          (ردالمحتار،کتاب الطھارة، مطلب: في دلالة المفھوم، ۱/۲۲۷، دار عالم الکتب)
          اسی کی طرف حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں بھی اشارہ موجود ہے کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دعا کے پڑھنے کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ ”جب تم بیت الخلاء میں داخل ہو، یا داخل ہونے کا ارادہ کرو تو یہ دعا پڑھ لو“․(السنن الکبریٰ للنسائي، کتاب الطھارة، ما یقول إذا دخل في الخلاء، رقم الحدیث: ۹۸۲۳، ۹/۳۵،موٴسسة الرسالة)
          البتہ! اس جگہ ایک بات پیش نظر رہنی چاہییے کہ اوپر ذکر کردہ لفظِ ”بیت الخلاء“سے مراد زمانہ ماضی کے وہ بیت الخلاء ہیں ،جہاں قضائے حاجت کر لینے کے بعد گندگی ونجاست پڑی رہتی تھی، بعدمیں اسے اکٹھا کر کے دور جنگل وغیرہ میں جا کر پھینکا جاتا تھا، موجودہ دور کے پختہ اور سنگ مر مر کے بنے ہوئے بیت الخلاء اس مفہوم سے بالا تر ہیں، پس اگراس قسم کے بیت الخلاء میں گندگی وغیرہ پھیلی ہوئی نہ ہو تواس میں دعا ستر کھولنے سے قبل پڑلی جائے، اس کی بھی گنجائش ہے؛ کیوں کہ ان بیت الخلاوٴں میں دعا پڑھنے کی صورت میں وہ خرابی نہیں ہے جو گندگی والے بیت الخلاء میں لازم آتی تھی؛لیکن اس صورت میں بھی بہتر یہی ہے کہ دعا بیت الخلاء سے باہر پڑھ کے داخل ہوا جائے۔
 بیت الخلاء میں زبان سے کلمہ پڑھنے اور قرآنِ پاک کی تلاوت کا حکم:
          بیت الخلاء میں زبان سے کلمہ پڑھنا ،کوئی ذکر کرنا ،قرآنِ پاک کی تلاوت کرنا یا اندر جاکر مسنون دعاپڑھناجائزنہیں؛البتہ دل ہی دل میں ذکر کرنایا چھینک وغیرہ کے جواب میں دل میں ہی ”الحمد للہ“ کہنا جائز ہے۔
          (الفتاوی العالمگیریہ، کتاب الطھارة، الفصل الثالث في الاستنجاء: ۱/۵۰، رشیدیہ)
بیت الخلاء میں لفظِ ”اللہ “ اور حروفِ مقطعات والی انگوٹھی یا لاکٹ پہن کے جانے کا حکم
          بیت الخلاء میں ایسی انگوٹھی یا لاکٹ پہن کے جانا ،جس پر لفظِ اللہ یا حروفِ مقطعات لکھے ہوں جائز نہیں ہے، ایسی انگوٹھی یا لاکٹ باہر رکھ کے پھر داخل ہونا چاہیے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل نقل کرتے ہیں کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت الخلاء میں داخل ہوتے تھے تو اپنی انگوٹھی اتار کر باہر ہی رکھ دیتے تھے۔
          (سنن أبي داوٴد، کتاب الطھارة، باب ما یقول الرجل إذا دخل الخلاء، رقم الحدیث: ۶، ۱/۳،دار ابن الحزم)
          اگر یہ چیزیں کسی چیز میں لپٹی ہوئی ہوں یا جیب میں ہوں یا لاکٹ گریبان میں قمیص کے نیچے چھپا ہوا ہو توان کے ساتھ بیت الخلاء میں جانے کی گنجائش ہے ؛لیکن بہتر پھر بھی یہی ہے کہ یہ اشیاء باہر رکھ کے اندر جائیں۔
کن چیزوں سے استنجاء کرنا جائز ہے اور کن سے ناجائز؟
          کاغذ،کھانے کی چیز،گوشت، درخت کے پتوں ،نجس اشیاء ، ہڈی، لید، گوبر، شیشہ، پختہ اینٹ، کوئلہ،ٹھیکری، بال اور اسی طرح دائیں ہاتھ سے استنجاء کرنا جائز نہیں، اس کے علاوہ ہرایسی چیز جوقابلِ احترام نہ ہو، خوراک نہ ہو، جسم کے لیے نقصان دہ بھی نہ ہواور قیمتی بھی نہ ہو تو اس سے استنجا کرنا جائز ہے۔
          (الفتاویٰ الھندیة، کتاب الطھارة، صفة الاستنجاء بالماء، ۱/۵۵، دار الکتب العلمیة)
 ڈھیلوں سے استنجاء کرنے کا حکم
          اگر کوئی شخص پانی سے استنجاء کرنے کے بجائے صرف ڈھیلوں سے استنجاء کرنا چاہے تو اس سلسلے میں تفصیل یہ ہے کہ اگرنجاست مخرج سے تجاوز کرجائے اور زائد کی مقدار ایک درہم سے زائد نہ ہو، تو بغیر دھوئے صرف ڈھیلے کے استعمال کرنے سے طہارت حاصل ہو جائے گی۔
          لیکن مخرج سے تجاوز کرنے والی نجاست اگر درہم کی مقدار سے زائد ہو تو اسے بلا عُذر دھوئے بغیر چھوڑدینا اور اسی طرح نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے اور اگر بقدرِ درہم یا اس سے کم ہو تو مکروہِ تنزیہی ہے۔
          (رد المحتار: کتاب الطھارة، باب الأنجاس:۱/۵۲۲، دار عالم الکتب)
دیر تک قطرے آنے والوں کے لیے طہارت کا طریقہ
          اگر پیشاب کرنے کے بعد کسی کو قطرے آنے کا مرض ہو تو اسے چاہیے کہ پہلے ڈھیلے یا ٹوائلٹ پیپر سے اچھی طرح خشک کر لے،حتی کہ پیشاب کی نالی کو خالی کرنے کی اپنی مقدور بھر کوشش کر لے ، اس کے بعدپانی سے استنجاء کرے۔
          (ردالمحتار، کتاب الطھارة، باب الأنجاس، مطلب في الفرق بین الاستبراء والاستسقاء والاستنجاء:۱/۵۵۸، دارعالم الکتب)
پردے کی عدم موجودگی میں صرف ڈھیلوں کے استعمال کا حکم
          اگر کوئی شخص کسی ایسی جگہ ہو جہاں پردے کے ساتھ استنجاء کرنا ممکن نہ ہو تو وہاں قضائے حاجت کے بعد صرف ڈھیلوں یا ٹوائلٹ پیپر کے ساتھ استنجاء کرنے پر اکتفاء کرے، ایسی جگہ پر دوسروں کے سامنے ستر کھول کر پانی سے استنجاء کرنا جائز نہیں۔
          (الفتاویٰ الھندیة، کتاب الطھارة، صفة الاستنجاء بالماء، ۱/۵۵، دار الکتب العلمیة)
شلّ ہاتھ والا استنجاء کیسے کرے؟
          اگر کسی شخص کا بایاں ہاتھ شل ہو اور وہ اپنے بائیں ہاتھ سے استنجاء کرنے پر قادر نہ ہو؛ تو دائیں ہاتھ سے استنجاء کرے اور اگر دایاں ہاتھ بھی شل ہو تو پھر ایسے شخص کے لیے حکم یہ ہے کہ کوئی دوسرا شخص (اپنی نظروں کی حفاظت کرتے ہوئے) پانی ڈالے اور اگر کوئی ایسا شخص بھی نہ ہو تو ایسے شخص سے استنجاء معاف ہے۔
          (الفتاویٰ الھندیة، کتاب الطھارة، صفة الاستنجاء بالماء، ۱/۵۵، دار الکتب العلمیة)
مریض آدمی کے لیے استنجاء کا حکم
          ایسا مریض جو وضو کرنے پر قادر نہ ہو؛لیکن اس کی بیوی موجود ہو تو وہ اسے استنجاء اور وضو کرائے اوراگر اس کی بیوی نہ ہو؛ لیکن بیٹا یا بھائی موجود ہو تواس کا بیٹا یا بھائی اس مریض کو وضو کرائے۔ اسی طرح کوئی عورت مریضہ ہواور اس کا شوہر بھی ہو تو اس کا شوہر اپنی بیوی کو بوقت ضرورت وضو بھی کروائے گا اور استنجاء بھی کروائے گااور اگر اس کا شوہر نہ ہو؛ لیکن اس کی بیٹی یا بہن موجود ہوں تو وہ وضو کرائیں۔
          (الفتاویٰ الھندیة، کتاب الطھارة، صفة الاستنجاء بالماء، ۱/۵۵، دار الکتب العلمیة)
قضائے حاجت کے وقت باتیں کرنااور ایک دوسرے کے ستر کو دیکھنا
          حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”دو آدمی قضاء حاجت کرتے ہوئے آپس میں باتیں نہ کریں کہ دونوں ایک دوسرے کے ستر کو دیکھ رہے ہوں؛ کیوں کہ اللہ تعالیٰ اس بات پر ناراض ہوتے ہیں“۔
          (سنن ابن ماجة، کتاب الطھارة، باب النھي عن الاجتماع علیٰ الخلاء والحدیث عندہ، رقم الحدیث:۳۴۲، ۱/۷۸،مکتبة المعارف،الریاض)
           انسانی شرافت سے بہت دور اور بڑی بد تہذیی کی بات ہے کہ دو افراد ننگے ہو کر ایک دوسرے کے سامنے اپنی حاجت سے فارغ ہوں اور اس سے بھی بڑی بے حیائی یہ ہے کہ اس دوران وہ دونوں آپس میں بات چیت بھی کرتے رہیں،یہ امر شرعاً جائز نہیں ہے۔
ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب کرنے کا حکم
          اگر کسی جگہ پانی کھڑا ہو تو اس میں پیشاب کرنا جائز نہیں ہے؛ اس لیے کہ اس پانی کو بہت سے کاموں میں استعمال کیا جانا ممکن ہے، حدیث پاک میں آتا ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :”تم میں سے کوئی ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب نہ کرے“۔ (سنن ابن ماجة، کتاب الطھارة، باب النھي عن البول في الماء الراکد، رقم الحدیث:۳۴۴، ۱/ ۷۸،مکتبة المعارف، الریاض)
کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کا حکم
          آج کل جدید تہذیب کے دلدادے، مغربیت کی تقلید میں کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کو جدیدیت ، تہذیب اور اسلوب زندگی شمار کرتے ہیں، اس عمل کے لیے نہ بیٹھنے کو ضروری خیال کرتے ہیں اور نہ ہی پانی سے استنجاء کرنے کو کوئی اہمیت دیتے ہیں، اب تو باقاعدہ ہر جگہ پیشاب کے لیے دیواروں میں ایسی جگہیں بنائی جاتی ہیں، جہاں کھڑے ہو کر پیشاب کرنا ممکن ہوتا ہے، اور ایسے بیت الخلاء ائیرپورٹ، ریلوے اسٹیشن، رُوٹ کی بڑی بسوں کے اڈوں اور سعودیہ میں حاجیوں کے لیے تیار کی جانے والی رہائش گاہوں میں تیار کیے گئے ہوتے ہیں؛حالاں کہ کھڑے ہو کر استنجا کرنا شرعاً ممنوع ہے، اس فعل کے مرتکب اپنے کپڑوں کو بھی پاک نہیں رکھ سکتے اور اپنے بدن کو بھی نہیں۔
          حضرت عمر رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار (ابتدائے اسلام میں جب مجھے مسئلے کا علم نہیں تھا)مجھے کھڑے ہو کر پیشاب کرتے ہوئے دیکھ لیا، تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اے عمر! کھڑے ہو کر پیشاب مت کر“، حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد میں نے (کبھی) کھڑے ہو کر پیشاب نہیں کیا۔ (سنن ابن ماجة، کتاب الطھارة، باب في البول قاعداً، رقم الحدیث:۳۰۸، ۱/۱۹۶،)
          درحقیقت یہ دشمنانِ اسلام کی سازش ہے ، کہ مسلمانوں کو ان کے پیغمبر علیہ السلام کی مبارک سنتوں سے اتنا دورکر دیا جائے کہ وہ اپنے ہی مسلم معاشرے میں اپنے نبی کی اتباع میں عار محسوس کریں۔
           ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم خود اپنی ذات سنت طریقے کے مطابق کرلیں، اور اپنی اولاد بالخصوص نابالغ اولادکی نگرانی کریں، کہ کہیں کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کی عادی تو نہیں بن رہی ہیں یا وہ پیشاب کرنے کے بعد استنجا لیتی ہے یا نہیں؟! اور اگر ایسا محسوس ہو تو فوراً مناسب تنبیہ کریں۔
پیشاب کی چھینٹوں سے نہ بچنے کا وبال
          کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کی صورت میں کپڑوں پر یا بدن پر چھینٹوں کا گرنا ایک یقینی امر ہے، دیکھنے کے اعتبار سے تو یہ چھوٹا اور معمولی عمل ہے؛ لیکن جزا کے اعتبار سے پیشاب کی چھینٹوں سے اپنے آپ کو نہ بچانا بہت بڑے وبال کا سبب ہے۔
          حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ایک بار نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گذرے تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ان دونوں کو عذاب ہو رہا ہے اور ان دونوں کو عذاب کوئی بڑے بڑے اور مشکل کاموں کی وجہ سے نہیں ہو رہا؛ بلکہ ان میں سے ایک کو پیشاب کی چھینٹوں سے نہ بچنے کی وجہ سے عذاب ہو رہا ہے اور دوسرے کو غیبت کرنے کی وجہ سے“۔
          (سنن ابن ماجة، کتاب الطھارة، باب: التشدید في البول، رقم الحدیث: ۳۴۹، ۱/۲۱۹، دار المعرفة، بیروت )
          اس لیے پیشاب کرنے کے بعد بہتر یہ ہے کہ پہلے کسی ڈھیلے یا ٹشو پیپر وغیرہ سے قطرات کو خشک کریں ، اس کے بعد پانی کا استعمال کریں۔اس طریقے سے مثانہ اور پیشاب کی نالی اچھی طرح خالی ہو جاتی ہے، فارغ ہونے کے بعد قطرے وغیرہ ٹپکنے سے امن رہتا ہے۔
قبلہ کی طرف منہ یا پشت کر کے پیشاب کرنے کاحکم
          قضائے حاجت کے احکام میں سے ایک حکم یہ بھی ہے کہ اس عمل کے دوران قبلے کی طرف نہ منہ کیا جائے اور نہ ہی پُشت، ایسا کرنا مکروہِ تحریمی ہے، چاہے قضائے حاجت کا وقت ہو یا (ننگے ہو کر)غسل کرنے کی حالت ہو، شہر میں ہو یا دیہات میں ،جنگل میں ہو یا صحرا میں،تمام صورتوں میں یہی حکم ہے۔
          حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جنابِ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کہ جب تم میں سے کوئی پیشاب کرنے کے لیے آئے تو قبلے کی طرف نہ چہرہ کرے اور نہ ہی پشت کرے۔ (صحیح البخاری، کتاب الوضوء، باب لا یستقبل القبلة بغائط أو بولٍ، رقم الحدیث: ۱۴۴، ۱/۶۸، المکتبة السلفیة)
قبلے کی طرف بنے ہوئے بیت الخلاء کا حکم
          اگر کسی گھر میں بیت الخلاء قبلہ ُرو بنا ہوا ہو یا اس طرح بنا ہو کہ قبلہ کی طرف پُشت ہوتا ہو تو اہلِ خانہ پر ٹھیک سمت میں بیت الخلاء بنانا واجب ہے، البتہ اگر اُس بیت الخلاء میں اپنا رُخ قبلہ کی طرف سے پھیر کر بیٹھے تو جائز ہے۔
          (الفتاویٰ الھندیة، کتاب الطھارة، صفة الاستنجاء بالماء، ۱/۵۵، دار الکتب العلمیة)
دودھ پیتے بچوں کے لیے استقبال قبلہ کا حکم
          والدہ یا ہر ایسا شخص جو بچوں کو قضائے حاجت کروائے، اس کے لیے ان بچوں کو لے کر قبلہ کی طرف رکھ کر کے بیٹھنا یا قبلہ کی طرف پشت کر کے بیٹھنا جائز نہیں؛، بلکہ وہ بھی شمالاً یا جنوباًبیٹھ کے قضائے حاجت کروائیں۔
          (رد المحتار مع الدر المختار، کتاب الطھارة، باب الأنجاس: ۱/۵۵۵، دار عالم الکتب)
مریض کے لیے استقبال قبلہ اور استدبار قبلہ کا حکم
          جو شخص مرض کی وجہ سے خود اپنا رُخ بدلنے پر قادر نہ ہو تو اس شخص کے تیمار دارقضائے حاجت کے وقت اس کو ایسے طریقے سے اٹھائیں یا لٹائیں کہ بہ وقت قضائے حاجت اس کا رُخ یا پیٹھ قبلہ کی طرف نہ ہو، اسی طرح ہسپتالوں میں بھی انتظامیہ کو چاہیے کہ مریضوں کے بیڈ / بستر قبلہ رُ خ پر حتیٰ الوسع بچھانے سے گُریز کریں۔
بیت الخلاء جاتے ہوئے سر ڈھانپنا
          بیت الخلاء جاتے ہوئے سر ڈھانپ کے جانا بھی سنت ہے، جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم بیت الخلاء میں داخل ہوتے تھے تو اپنے سر کو ڈھانپ لیتے تھے۔
          (السنن الکبریٰ للبیہقي،کتاب الطھارة، باب تغطیة الرأس عند دخول الخلاء، رقم الحدیث: ۴۶۴،۱/۹۶،دائرة المعارف،دکن)
پیشاب پاخانہ کی طرف دیکھنے کی ممانعت
          اپنے بول و براز کی طرف دیکھنا خلاف ادب ہے، علامہ طحطاوی  نے لکھا ہے کہ یہ نسیان کو پیدا کرتا ہے۔(کتاب الطہارة: ۱/۳۱، دارالکتب العلمیة)
قضائے حاجت کے بعد زمین پر ہاتھ ملنے کا حکم
          حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ” نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے جب استنجاء کر لیا تو اپنے ہاتھوں کوزمین پر رگڑا“۔
          (سنن الترمذي، کتاب الطھارة، باب: دلک الید بالأرض بعد الاستنجاء، رقم الحدیث:۵۰، دارالسلام)
           موجودہ دور میں اس عمل پر قادر شخص کے لیے یہ عمل بھی مسنون ہو گا، بصورت دیگر صابن وغیرہ سے ہاتھوں کو دھو لینا بھی اس کا قائم مقام ہو جائے گا۔
استنجا کے بعد ہاتھ دھونے کا حکم
          استنجاء کرنے کے بعد اگر ظنِ غالب ہو کہ ہاتھ صاف ہوگئے ہیں اور بدبو وغیرہ بھی ختم ہو گئی ہے تو مزید صفائی کے لیے ہاتھ دھونا مسنون ہے؛ لیکن ضروری نہیں ہے، مطلب یہ کہ اگر یہ شخص ہاتھ نہ دھوئے تو عند اللہ مجرم نہیں ہو گا۔
          (الفتاویٰ الھندیة، کتاب الطھارة، صفة الاستنجاء بالماء، ۱/۵۵، دار الکتب العلمیة)
جن جگہوں میں استنجاء کرنا مکروہ ہے
          جن جگہوں میں استنجاء کرنا مکروہ ہے وہ درج ذیل ہیں:پانی میں، حوض یا چشمے کے کنارے، پھل دار درخت کے نیچے، کھیتی میں ، ہر ایسے سایہ میں جہاں لوگ بیٹھتے ہوں، مساجد اور عید گاہ کے پہلو میں ، قبرستان میں اور مسلمانوں کی گذرگاہ میں، سورج یا چاند کی طرف منہ کر کے، ڈھلوان (نیچے والی سطح) میں بیٹھ کے اوپر کی جانب پیشاب کرنا، ہوا کے رُخ پر پیشاب کرنا، چوہے، سانپ یا چیونٹی کے بل میں پیشاب کرنا۔غرض جس جگہ سے بھی لوگوں کا نفع وابستہ ہو اور وہاں ناپاکی یا گندگی ان کے لیے تکلیف دِہ ہو یا اس عمل کی وجہ سے خود اس کو کسی ضرر پہنچنے کا اندیشہ ہو، وہاں پیشاب پاخانہ کرنا جائز نہیں ہے۔
          (البحر الرائق، کتاب الطھارة، باب الانجاس، ۱/ ۶۵۲، دارالکتب العلمیة)
قضائے حاجت کا مفصل طریقہ
          جب کوئی شخص بیت الخلاء میں جانے کا ارادہ کرے، تو اس کے لیے مناسب ہے کہ ایسے وقت میں ہی چلا جائے جب اس پر قضائے حاجت کا بہت زیادہ تقاضا نہ ہو؛ بلکہ یہ شخص اس حالت کے طاری ہونے سے پہلے پہلے ہی بیت الخلاء میں داخل ہو جائے،اس دوران یہ شخص اپنے ساتھ کوئی ایسی چیزجس پر اللہ کا نام(یا قرآن ِ پاک کی آیت وغیرہ لکھی ہوئی ) ہو ،نہ لے جائے،اور ننگے سر بھی نہ جائے، جب دروازے کے پاس پہنچ جائے تو بیت الخلاء میں داخل ہونے والی دعا پڑھنے سے قبل ”بسم اللہ الرحمن الرحیم“ پڑھے ، پھر دعائے ماثورہ ”اَللّٰہُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُبِکَ مِنَ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ“ پڑھے، پھر بایاں پاوٴں اندر داخل کرے،پھر زمین کے قریب ہوکر ستر کھولے، پھر اپنے پاوٴں کو قدرے کشادہ کر کے اس طرح بیٹھے کہ اس کے بدن کا زیادہ وزن بائیں پاوٴں پر ہو، اس حالت میں یہ شخص اُخروی امور (مثلاً: علم دین ،فقہ وغیرہ ) کے بارے میں نہ سوچے، کوئی شخص اِس کو سلام کرے تو اُسے جواب نہ دے، موٴذن کی آواز اس کے کانوں میں پڑے تو اُس کا جواب نہ دے، اس حالت میں اس کو چھینک آئے تو ”الحمد للہ“ نہ کہے، اپنے اعضائے مستورہ کی طرف نظر نہ کرے، بدن سے نکلنے والی گندگی کی طرف بھی نہ دیکھے، پاخانہ پر تھوک، ناک کی رینٹھ، اور بلغم وغیرہ نہ تھوکے، بہت زیادہ دیر تک وہاں نہ بیٹھے، آسمان کی طرف نہ دیکھے، بلکہ معتدل کیفیت کے ساتھ رہے، پھر جسم سے خارج ہونے والی نجاست کوپانی ڈال کر اچھی طرح بہا دے، پھر جب فارغ ہو جائے تو شرمگاہ کے نیچے کی جانب موجود رَگ پر اپنی انگلی پھیر کے اُسے اچھی طرح پیشاب کے قطروں سے خالی کر دے، پھر تین پتھروں سے اپنے عضو سے نجاست دور کرے، پھر فارغ ہو کے سیدھا کھڑا ہو نے سے پہلے پہلے اپنے ستر عورت کو چھپالے، پھر اپنا دایاں پاوٴں بیت الخلاء سے باہر نکال کر قضائے حاجت کے بعد کی دعا پڑھے ”غُفْرَانَکَ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِيْ أَذْھَبَ عَنِّيْ الْأَذیٰ وعَافَانِيْ“۔(ردالمحتار مع الدرالمختار،کتاب الطھارة، باب الأنجاس: ۱/۹۵۵، دارعالم الکتب)
قضائے حاجت کے وقت کی احتیاطیں
          تکمیل عبادات کے لیے چوں کہ طہارتِ کاملہ ضروری ہے؛ اس لیے قضائے حاجت سے فراغت پر استنجاء کرتے وقت مبالغے کی حد تک اپنے آپ کو پیشاب کے قطروں اور ناپاکی سے بچانا ضروری ہے، بالخصوص موجودہ دور میں جب کہ پختہ بیت الخلاء اور پانی سے استنجا ء کرنے کا معمول عام ہو چکا ہے، احتیاط لازم ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ جیسے ہی بیت الخلاء میں داخل ہو، اسی وقت ٹونٹی کھول کے پانی کے ہونے یا نہ ہونے کا اندازہ کرلے ، اس کے علاوہ بیٹ الخلاء میں ٹشوپیپر بھی ضرور رکھنے چاہئیں؛ تا کہ بوقت ضرورت ان کو استعمال کیا جا سکے۔
          جن مقامات میں ٹونٹیوں کی حالت معلوم نہ ہو وہاں لوٹے کو اوپر اٹھا کر ٹونٹی کے قریب کر کے پانی بھریں ، پھر نیچے رکھ دیں، اسی طرح پیشاب کرنے میں احتیاط اس طرح برتی جائے کہ پیشاب فلش میں سامنے کی ٹھوس جگہ میں قوت سے نہ ٹکرائے؛کیوں کہ اس صورت میں اسی قوت کے ساتھ چھینٹیں اڑنے کا قوی امکان ہوتاہے، اس سے حفاظت اسی صورت میں ممکن ہے کہ پیشاب فلش کی سائڈوں میں گرے نہ کہ سامنے والے حصے میں۔
          آخر میں اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں دین کے اس اہم اور عظیم الشان حکم کو نہایت کامل اور احسن طریقے سے ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
***